کراچی کی پرانی گلیوں میں ایک عجیب سا سکوت تھا، جیسے ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہو۔ رات کا وقت تھا، اور شہر کی چمک دمک سے دور، ان گلیوں میں کچھ ایسا تھا جو دلوں کو بے چین کر دیتا تھا۔ کوئی آواز نہیں تھی، بس ایک گہرا خاموشی کا سماں تھا، جیسے یہ گلیاں کچھ پرانی کہانیاں سنانے کو بے چین ہوں۔
اس وقت کی ہوا بھی کچھ اور تھی، ٹھنڈی، سرد اور گہری۔ منیب اور اس کے دوست ان گلیوں میں چل رہے تھے، جنہیں انہوں نے بچپن سے سنا تھا کہ یہاں کچھ پراسرار باتیں ہو رہی ہیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ گلیاں کبھی زندہ نہیں رہیں، یہاں بس روحیں بستی ہیں، اور ان میں ایک ایسا راز چھپا ہوا ہے، جو آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
ایک دن منیب اور اس کے دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پرانے حصے کا راز خود جانیں گے۔ رات کے اندھیرے میں جب ہر طرف شہر کی روشنی مدھم پڑ چکی تھی، وہ سب ان گلیوں کی طرف چل پڑے۔ گلیوں کا منظر عجیب تھا، جیسے ہر دیوار پر کوئی غمگین داستان لکھی ہوئی ہو۔ ان کی نظریں خوف سے لرزتی گئیں۔
پھر ان کی نظر ایک پرانی حویلی پر پڑی، جو کہ سالوں سے کھڑی تھی، لیکن اس کی کھڑکیاں بند، دروازے بند اور اندر کی دنیا ایک خاموش قبر کی طرح تھی۔ منیب نے کہا، “چلو، اندر چلتے ہیں، کچھ نہیں ہوگا۔” لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سا خوف تھا، جو اس نے چھپانے کی کوشش کی۔
جیسے ہی وہ اندر پہنچے، ایک عجیب سی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا، جو گزرنے والے ہر شخص کی ہڈیوں تک کو سِیٹ دینے والا تھا۔ گلیوں کی خاموشی میں یک دم ایک آواز سنائی دی: “یہ جگہ تمہارے لیے نہیں ہے، یہاں جو بھی آیا، وہ واپس نہیں جا سکا۔”
منیب کا دل دہل گیا، اور اس کے قدم روک گئے۔ دروازہ بند ہو چکا تھا، اور اس کے سامنے ایک پراسرار چہرہ نظر آیا۔ یہ چہرہ نہ زندہ تھا، نہ مردہ۔ ایک کالی سی پرچھائیں اس کی شکل میں مچل رہی تھیں۔ منیب کا سانس رک گیا۔
“یہ… یہ کیا تھا؟” اس نے ہونٹوں کے بیچ سے بمشکل کہا۔ اس کے دوستوں کی آنکھوں میں بھی خوف تھا، اور وہ سب وہاں سے نکلنے کے لیے بے چین ہو گئے۔
جب تک وہ حویلی سے باہر نہ نکلے، اس پراسرار منظر نے ان کے ذہن میں ایک سوال چھوڑ دیا: کیا واقعی کراچی کی یہ پرانی گلیاں خالی ہیں؟ یا پھر ان میں چھپے ہوئے راز ہیں جو کسی کو بتائے نہیں جا سکتے؟
اس رات کے بعد، منیب اور اس کے دوستوں نے اس گلیوں کے علاقے کو دوبارہ نہیں آزمایا، اور اس دن کے بعد وہ یہ سمجھ گئے کہ کراچی کے اس حصے میں کچھ ایسی روحیں بستیں ہیں، جو آج بھی وہاں اپنے راز سنانے کے لیے تیار ہیں، لیکن صرف ان لوگوں کو جو اس کی حقیقت کو جاننے کی جرات کرتے ہیں۔