NEW URDU STORIES
احمد ایک کامیاب بزنس مین تھا۔ اس کے پاس ہر وہ چیز موجود تھی جس کا کوئی خواب دیکھ سکتا ہے: ایک شاندار بنگلہ، لگژری گاڑیاں، اور بے شمار دولت۔ لیکن کامیابی کے اس سفر میں، احمد نے اپنے اندر غرور اور خودپسندی کو جگہ دے دی تھی۔ وہ اپنے ملازمین کو کمتر سمجھتا اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آتا۔ اس کا ماننا تھا کہ اس کی کامیابی صرف اس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے اور دوسروں کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہےایک دن احمد ایک بڑی میٹنگ کے لیے جا رہا تھا۔ یہ میٹنگ اس کے بزنس کے لیے بے حد اہم تھی کیونکہ اس میں ایک بڑے معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے۔ راستے میں، اس کی گاڑی اچانک خراب ہو گئی۔ احمد کو شدید غصہ آیا، لیکن کوئی اور چارہ نہ دیکھتے ہوئے وہ قریب ہی موجود ایک چھوٹے سے ورکشاپ پر رک گیا۔ورکشاپ کا مالک ایک بوڑھا مکینک تھا جس کا نام بابا کریم تھا۔ بابا کریم نے مسکراتے ہوئے احمد کو خوش آمدید کہا اور پوچھا:
“بیٹا، کیا مسئلہ ہے؟”احمد نے بے صبری سے جواب دیا:
“گاڑی خراب ہو گئی ہے، اور مجھے جلدی پہنچنا ہے۔ کیا تم یہ فوراً ٹھیک کر سکتے ہو؟”بابا کریم نے اطمینان سے کہا:
“بیٹا، گاڑی ٹھیک ہو جائے گی، لیکن اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔”احمد نے غصے سے کہا:
“مجھے اندازہ ہے کہ تمہارا وقت سستا ہوگا، لیکن میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ مجھے جلدی کرو۔”بابا کریم نے مسکراتے ہوئے کہا:
“بیٹا، وقت کا پہیہ سب کے لیے برابر ہے۔ کبھی یہ اوپر لے جاتا ہے اور کبھی نیچے۔”احمد نے طنزیہ انداز میں جواب دیا:
“وقت کا پہیہ میرے لیے ہمیشہ اوپر کی طرف گھومتا ہے۔”بابا کریم نے خاموشی سے گاڑی ٹھیک کرنا شروع کر دیاحمد اپنی میٹنگ میں وقت پر پہنچ گیا اور معاہدہ بھی طے پا گیا۔ لیکن چند مہینوں بعد، حالات بدلنے لگے۔ احمد کے بزنس میں اچانک خسارہ ہونے لگا۔ جن کلائنٹس پر وہ بھروسہ کرتا تھا، وہ دوسری کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کرنے لگے۔ اس کے ملازمین، جنہیں وہ ہمیشہ کمتر سمجھتا تھا، ایک ایک کر کے نوکری چھوڑنے لگے۔احمد کی دولت کم ہونے لگی، اور اس کا غرور ٹوٹنے لگا۔ وہ جو کبھی دوسروں کو نظرانداز کرتا تھا، اب خود کو تنہا محسوس کرنے لگاایک دن، احمد کو اپنی پرانی بات یاد آئی اور وہ دوبارہ اسی ورکشاپ پر پہنچ گیا۔ بابا کریم نے اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا:
“بیٹا، لگتا ہے وقت کا پہیہ نیچے آ گیا ہے۔”احمد نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا:
“بابا، آپ ٹھیک کہتے تھے۔ میں نے وقت کو ہمیشہ اپنے قابو میں سمجھا، لیکن اب مجھے احساس ہوا کہ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا۔”بابا کریم نے شفقت سے کہا:
“بیٹا، وقت کا پہیہ ہمیں سبق سکھانے کے لیے گھومتا ہے۔ جو لوگ عاجزی اور شکرگزاری اپناتے ہیں، وقت ان کے لیے مہربان ہو جاتا ہے۔ لیکن جو غرور کرتے ہیں، وقت انہیں نیچے گرا دیتا ہے۔اس دن کے بعد احمد نے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے ملازمین کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کیا، ان کی محنت کی قدر کی، اور اپنے کلائنٹس کے ساتھ ایمانداری سے معاملات کرنے لگا۔ اس نے اپنی زندگی میں عاجزی کو جگہ دی اور دوسروں کے لیے محبت اور ہمدردی کا رویہ اپنایا۔وقت نے ایک بار پھر احمد پر اپنی مہربانی دکھائی۔ اس کا بزنس دوبارہ ترقی کرنے لگا، اور وہ اپنی کامیابی کے ساتھ خوشی اور سکون بھی حاصل کرنے لگا
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی میں غرور اور خودپسندی سے بچنا چاہیے۔ وقت کسی کے لیے بھی یکساں نہیں رہتا، اور اس کا پہیہ ہمیشہ گھومتا رہتا ہے۔ عاجزی اور شکرگزاری اپنانے والے لوگ ہی زندگی کی اصل خوشیوں کو پا سکتے ہیں۔ وقت کی قدر کریں اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، کیونکہ وقت کا پہیہ جب گھومتا ہے تو کسی کو بھی اوپر یا نیچے لے جا سکتا ہے