URDU STORIES

NEW URDU STORIES عمیر کی بہادری یا حماقت

NEW URDU STORIES

عمیر کی بہادری یا حماقت

ایک گاؤں، جو اپنی پرسکون زندگی کے لیے مشہور تھا، مگر ایک ایسی پراسرار جگہ کے سائے میں تھا، جہاں قدم رکھنے کی کوئی جرات نہیں کرتا تھا۔ یہ جگہ گاؤں سے تقریباً پانچ میل دور، جنگل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی ایک کھنڈر تھی، جس کے بارے میں لوگ خوفناک کہانیاں سناتے تھے۔ وہ جگہ کبھی ایک ظالم رئیس کی رہائش گاہ تھی، جو اپنے محل میں لوگوں کی روحوں سے کھیلتا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔کہتے تھے کہ رئیس نے اپنی دولت کو کھنڈر میں چھپایا اور مرتے وقت اپنی روح کو ہمیشہ کے لیے وہاں باندھ دیا۔ جو کوئی اس خزانے کی تلاش میں کھنڈر میں داخل ہوتا، وہ کبھی زندہ واپس نہ آتا۔ ہر رات وہاں سے خوفناک چیخیں آتی تھیں، جو گاؤں کے لوگوں کی نیندیں اڑا دیتی تھیںعمیر، گاؤں کا ایک نوجوان، بہادر لیکن حد سے زیادہ بے پرواہ تھا۔ اس نے ہمیشہ گاؤں کے لوگوں کی کہانیوں کو فرضی سمجھا۔ ایک دن، اپنی بہادری کو ثابت کرنے کے لیے، عمیر نے اعلان کیا کہ وہ رات کے وقت کھنڈر میں جا کر وہاں کے راز کو فاش کرے گا۔اس کے دوستوں نے اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن اس نے ان کی باتوں کو مذاق میں اڑا دیا۔
“میں وہاں جا کر خود دیکھوں گا! یہ سب محض ڈرپوک لوگوں کی باتیں ہیں!”
وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور ایک تاریک اور سرد رات کو مشعل اور ایک خنجر لے کر روانہ ہو گیا۔رات کے اندھیرے میں، جنگل کی طرف جانے والا راستہ بالکل سنسان تھا۔ ہوا میں ایک غیر معمولی خاموشی تھی، جیسے سب کچھ ساکت ہو گیا ہو۔ عمیر نے قدم بڑھائے، لیکن اسے بار بار ایسا محسوس ہوا کہ کوئی اس کے پیچھے ہے۔ درختوں کے درمیان سے عجیب سایے جھانک رہے تھے، اور زمین پر سرسراہٹ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔راستے میں ایک بوڑھا شخص، جو ہمیشہ گاؤں کے قریب بیٹھا رہتا تھا، عمیر کے راستے میں آیا اور کہا:
“بیٹا، کھنڈر میں نہ جانا۔ وہ جگہ زندہ انسانوں کے لیے نہیں!”
عمیر نے مسکرا کر جواب دیا:
“میں کسی سے نہیں ڈرتا، بابا!”جنگل کے بیچوں بیچ، کھنڈر کے آثار نمودار ہونے لگے۔ ایک بڑا دروازہ، جو زنگ آلود تھا، عمیر کے سامنے کھڑا تھا۔ دروازے پر گہرے ناخنوں کے نشان تھے، جیسے کسی نے اسے نوچنے کی کوشش کی ہو۔ اس پر خون کے دھبے اور پراسرار نشان کندہ تھے، جنہیں دیکھ کر ہی دل دہلنے لگتا تھا۔عمیر نے دروازے کو دھکیلا، اور وہ ایک خوفناک چرچراہٹ کے ساتھ کھل گیا۔ اندر کا منظر انتہائی بھیانک تھا۔ دیواروں پر خون کے دھبے، فرش پر جلی ہوئی ہڈیوں کے ڈھیر، اور چھت سے لٹکتے مکڑی کے جالے۔ فضا میں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی، جو زندہ لاشوں کی سڑاند کی مانند تھیعمیر نے مشعل جلا کر کھنڈر کے اندر قدم رکھا۔ ہر طرف قبر جیسا سناٹا تھا، لیکن اچانک ایک عجیب سی آواز گونجی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی چیخ رہا ہو، لیکن آواز نہایت دھیمی تھی۔ عمیر نے پیچھے مڑ کر دیکھا، لیکن وہاں کچھ نہ تھا۔فرش پر عجیب و غریب نقوش بنے ہوئے تھے، اور دیواروں پر خونی ہاتھوں کے نشان تھے، جو آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے۔ اچانک، اس کی مشعل خود بخود بجھ گئی، اور اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرے میں، عمیر نے کسی کے قدموں کی چاپ سنی، اور پھر ایک سرگوشی:
“عمیر… تم یہاں کیوں آئے ہو؟”عمیر کے جسم میں سرد لہر دوڑ گئی۔ اس نے جلدی سے دوسری مشعل جلائی، لیکن اب سامنے کا منظر پہلے سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔کھنڈر کے ایک کونے سے ہلکی سی روشنی آ رہی تھی۔ عمیر نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہاں انسانی ہڈیاں خود بخود جڑ کر ڈھانچوں کی شکل اختیار کر رہی تھیں۔ ان ڈھانچوں کے خالی آنکھوں کے گڑھے عمیر کو گھور رہے تھے۔ وہ اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن اس کے قدم زمین میں جم چکے تھے۔ڈھانچے آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگے، ان کے جوڑوں سے ہڈیوں کے رگڑنے کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ عمیر نے چیخ کر بھاگنے کی کوشش کی، لیکن ایک عجیب سایہ اس کے راستے میں کھڑا ہو گیاوہ سایہ آہستہ آہستہ انسانی شکل اختیار کرنے لگا۔ یہ رئیس کی روح تھی، جس کی آنکھیں دہکتے انگاروں کی طرح سرخ تھیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک قدیم تلوار تھی، جس پر تازہ خون کے دھبے تھے۔ رئیس نے غضبناک آواز میں کہا:
“تم نے میری سلطنت میں قدم رکھا ہے! اب تم ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے!”عمیر نے خوف کے مارے چیخ ماری، لیکن اس کی آواز اس کے گلے میں دب گئی۔ رئیس نے اپنی تلوار بلند کی، اور کھنڈر کی دیواروں پر خون کے دھارے بہنے لگے۔ عمیر کی آنکھوں کے سامنے ہر چیز دھندلا گئی، اور پھر اس کے ارد گرد اندھیرا چھا گیا۔اگلی صبح، گاؤں کے لوگوں نے کھنڈر کے قریب عمیر کی مشعل اور خنجر دیکھا، جو خون میں لت پت تھے۔ کھنڈر کے دروازے پر خون سے ایک جملہ لکھا ہوا تھا:
“یہاں آنے والے واپس نہیں جاتے!”لوگوں نے اس دن کے بعد کھنڈر کے قریب جانے کی ہمت نہیں کی۔ کہتے ہیں کہ رات کے وقت وہاں سے اب بھی عمیر کی چیخوں کی آوازیں آتی ہیں، اور رئیس کی روح نئے شکار کی تلاش میں رہتی ہے

jrwdigitaldesigning@gmail.com

Share
Published by
jrwdigitaldesigning@gmail.com

Recent Posts

لالچی بندر

لالچی بندر ایک درخت پر ایک بندر رہتا تھا۔ ایک دن اسے ایک مٹی کا…

2 months ago

Urdu Aqwal

Urdu Aqwal   Daily Quotes

3 months ago

Quotes

 URDU QUOTES   DAILY QUOTES  

4 months ago

Quotes

URDU QUOTES ENGLISH QUOTES    

4 months ago

QUOTES

SAD QUOTES DAILY QUOTES  

4 months ago

DAILY QUOTES

URDU QUOTES     رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اپنے غصے کو روک لے،…

5 months ago