URDU STORIES

کلفٹن کا وہی ساحل، مگر اب چاند کی روشنی بجھ چکی ہے۔ گھنے بادلوں نے آسمان کو دبوچ رکھا ہے۔ ہوا میں نہ صرف سڑی مچھلی، بلکہ گہرے زخموں سے اٹھتی ہوئی خون کی بو بسی ہوئی ہے۔ علی، زارا، اور فرحان کے خیمے کے آس پاس کی ریت پر عجیب نشانات ہیں… جیسے کوئی گھسیٹتے ہوئے لاش کو کھینچ کر لے گیا ہو

رات گئے تک تینوں نے شرطیں لگائیں کہ کون خوف سے پہلے چیخے گا۔ مگر جب گھڑی نے ۳ بجے کی ٹک ٹک روکی، تو خیمے کے باہر سے ایک بچے کے رونے کی آواز آنے لگی۔ زارا نے کہا، “سنو؟ یہ کون ہے؟” فرحان نے کہا، “شاید کسی کی بچی کھو گئی ہو۔” لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلا، روتا ہوا لہجہ اچانک کھڑکھڑاہٹ میں بدل گیا—جیسے کسی کی ہڈیاں پس رہی ہوں۔

اندر واپس آتے ہی، خیمے کی چھت پر کسی نے ناخوں سے خراشیدیں کھینچنا شروع کر دیں۔ علی نے ٹارچ جلائی تو چھت پر گہرے سرخ دھبے نظر آئے… جو قطرہ قطرہ نیچے ٹپک رہے تھے۔ زارا کے ہونٹوں سے نکلا، “یہ خون ہے…

پھر وہ آواز دوبارہ—اب خیمے کے اندر سے۔ “میری آنکھیں ڈھونڈو… سمندر نے چھین لی ہیں،” ایک عورت نے سرگوشی کی، مگر آواز ایک نہیں، بلکہ درجنوں تھیں، جیسے ہر طرف سے گونج رہی ہوں۔ فرحان نے خیمے کا دروازہ کھولا تو سامنے سیاہ بالوں کا گچھا لटکا ہوا تھا، جس میں سے ایک گھٹی ہوئی آواز نکلی، “آؤ… مجھے اپنی آنکھیں دے دو۔“علی پیچھے ہٹا، مگر اس کے پیروں نے کسی ٹھنڈی، پھسلن بھری چیز کو چھو لیا۔ نیچے دیکھا تو ایک سفید ہاتھ ریت سے باہر نکلا ہوا تھا، جس کی انگلیاں اس کے ٹخنے کو کس کر پکڑنے لگیں۔ زارا چیخی: “یہ لاش زندہ ہو رہی ہے!“تب تک، خیمے کی دیواریں گیلے بالوں سے ڈھک چکی تھیں۔ ہوا میں وہ عورت نمودار ہوئ—اب اس کا چہرہ کٹا ہوا تھا، جیسے کسی نے چاقو سے پھاڑ دیا ہو۔ اس کے گلے میں ۱۹۴۷ء کی شادی کا گہنا تھا، جو زنگ آلود ہو کر اس کے جسم میں گھس رہا تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ زارا کے سینے پر رکھا، اور سردی اس کی رگوں میں سرایت کر گئی۔ “میرا بدن ڈھونڈو… ورنہ تمہارے بدن مٹی کا حصہ بن جائیں گے،” اس نے ہنستے ہوئے کہا، جبکہ اس کے منہ سے کیچوے گر رہے تھے۔

فرحان نے اپنی جیب سے ایک پرانا تعویذ نکالا، جو اس کی دادی نے دیا تھا۔ عورت چیخ کر پیچھے ہٹی، جیسے آگ لگ گئی ہو۔ “ہم ڈھونڈیں گے!” علی نے دہائی دی۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ بھاگتے، عورت نے ریت پر خون سے لکھا: “میری قبر بندر روڈ کے نیچے ہے… جاؤ، ورنہ میں تمہاری روحیں لہروں میں بند کر دوں گی۔”اگلے دن، بندر روڈ کے نیچے کھدائی میں ایک کچا قبرستان ملا—تقسیم کے وقت پناہ گزینوں کی لاشیں پھینکی گئی تھیں۔ مگر جب اس عورت کی ہڈیاں دفن کی گئیں، تو مولوی صاحب نے خبردار کیا: “یہ صرف ایک نہیں… یہاں تو ہزاروں بے آرام روحیں ہیں۔“اُس رات، زارا نے اپنے کمرے میں گھنگرو کی آواز سنی۔ کھڑکی سے باہر دیکھا تو وہی عورت سڑک پر کھڑی تھی… اب اس کے ساتھ سایوں کا ایک لشکر تھا

کراچی کی مٹی میں صرف ایک نہیں، لاکھوں کہانیاں دفن ہیں۔ اور وہ خاموش نہیں رہنا چاہتیں

More Story Click Now

Love story

URDU QUOTES

ENGLISH QUOTES  MOTIVATIONAL QUOTES DEEP QUOTES

jrwdigitaldesigning@gmail.com

Recent Posts

لالچی بندر

لالچی بندر ایک درخت پر ایک بندر رہتا تھا۔ ایک دن اسے ایک مٹی کا…

2 months ago

Urdu Aqwal

Urdu Aqwal   Daily Quotes

3 months ago

Quotes

 URDU QUOTES   DAILY QUOTES  

4 months ago

Quotes

URDU QUOTES ENGLISH QUOTES    

4 months ago

QUOTES

SAD QUOTES DAILY QUOTES  

4 months ago

DAILY QUOTES

URDU QUOTES     رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اپنے غصے کو روک لے،…

5 months ago