URDU STORY
کراچی صرف روشنیوں، ٹریفک، اور زندگی کا شہر نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پتھروں میں دبی سسکیاں اور عمارتوں کے نیچے دفن چہرے ہر رات اپنی کہانی سناتی ہیں۔ یہ انتھولوجی اُنہیں آواز دیتی ہے۔ پڑھتے وقت محسوس ہوگا جیسے کوئی آپ کے کندھے کے پیچھے سانس لے رہا ہو۔
زینب کی سانسوں نے اسے دھوکہ دے دیا تھا۔ ہوا میں گلے سڑے پھولوں کی بو گھل گئی تھی، جیسے کوئی مرتا ہوا باغ سانس لے رہا ہو۔ مارکیٹ کے دروازے پر لٹکا ہوا تالا زنگ آلود تھا، مگر اب وہ کھلا پڑا تھا—جیسے کسی نے اُس کے لیے راستہ بنایا ہو۔ اندر کی ہری روشنی اب سرخ ہو چکی تھی، جیسے دیواروں سے خون ٹپک رہا ہو۔ وہ سائے جو پہلے دور سے دکھائی دے رہے تھے، اب اس کے بالوں تک پہنچ چکے تھے۔ ایک خاتون کی آواز اس کے کان میں گونجی: “تمہاری آنکھیں چاہتی ہیں۔ تمہاری آنکھیں۔”
زینب نے پیچھے مڑ کر بھاگنے کی کوشش کی، مگر زمین نرم ہو گئی تھی—جیسے لاکھوں بالوں سے بنا ہوا قالین۔ اچانک اس کے قدموں تلے سے ایک ہاتھ باہر نکلا، پھر دوسرا… پھر سینکڑوں۔ وہ چیختی رہ گئی جب کھوپڑیوں سے بھرا ایک گڑھا کھل گیا، اور اسے اندر کھینچ لیا گیا۔
اگلے دن، پولیس نے مارکیٹ کے اندر ایک پرانی دکان سے زینب کے بالوں کا گچھا ملا۔ دکان کے شیشے پر ایک پرانی انگلیوں کے نشان تھے، اور نیچے لکھا تھا: “تمہارا شکریہ۔ اب ہماری آنکھیں ہیں۔”
“مانورا کی ڈوبتی ہوئی راتیں” (خوفناک ورژن)
عائشہ کا دایاں پاؤں کسی چیز سے جڑ گیا تھا۔ جب اس نے نیچے دیکھا، تو اپنی ہی تصویر کو پانی میں مسکراتے ہوئے دیکھا—مگر اس کی آنکھیں نہیں تھیں۔ سامنے سے ایک کشتی آہستہ آہستہ ابھری، جس پر سوکھے ہوئے پھول اور کالی موم بتیاں رکھی تھیں۔ کشتی میں بیٹھی عورت نے سر اٹھایا—وہ عائشہ جیسی لگ رہی تھی، مگر اس کا منہ کٹا ہوا تھا، جیسے شارک نے کاٹ لیا ہو۔
“یہ تمہاری جگہ ہے،” عورت نے کہا، جبکہ اس کے ہاتھ سے سمندر کا پانی انسانوں کی چربی میں بدلنے لگا۔ سعد کی چیخ بند ہو گئی جب اس کی زبان باہر نکلی—وہ زندہ کیڑوں سے بھری ہوئی تھی۔
عائشہ لائٹ ہاؤس پہنچی تو اندر 1947 کی شادی کا سماں تھا—مہمانوں کے چہرے موم کے بتوں جیسے پگھل رہے تھے۔ ڈائری کے آخری صفحے پر لکھا تھا: “ہم نے انہیں قربان کیا۔ اب تمہاری باری ہے۔” جیسے ہی ماہی گیر نے اسے چھوا، عائشہ کی جلد پر سیاہ رگیں پھٹنے لگیں، اور وہ چیختی ہوئی سمندر میں گر گئی
آج بھی مقامی لوگ کہتے ہیں کہ طوفان کے وقت عائشہ کی آواز سنائی دیتی ہے: “تمہیں بھی آنکھیں چاہیں گی؟”
More Click Now