ISLAMIC INFORMATION
یہ واقعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے جو ہمیں انسانیت کی خدمت، رحم دلی، اور اسلام کی تعلیمات کی عملی تصویر دکھاتا ہے۔ یہ کہانی ان کے کردار، ان کی شفقت، اور ان کے نبی ﷺ سے سیکھے ہوئے اصولوں کی عکاسی کرتی ہےیہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے خلیفہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ نہایت سادہ اور عاجز انسان تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا تھا۔ وہ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ کوئی بھی شخص بھوکا یا بے سہارا نہ رہے۔
ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے۔ یہ قافلہ ایک طویل راستے پر تھا، اور راستے میں مختلف مقامات پر قیام کیا جاتا تھا۔ قافلے میں تاجر، مزدور، اور دیگر لوگ شامل تھے۔
راستے میں ایک مقام پر قافلہ رکا تاکہ لوگ آرام کر سکیں۔ وہاں ایک غریب اور بے سہارا شخص قافلے کے قریب آیا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے، اور بھوک سے اس کی حالت بہت خراب تھی
وہ شخص قافلے کے لوگوں کے پاس گیا اور نہایت عاجزی سے کھانے کی درخواست کی۔ اس نے کہا:
“میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں۔ اللہ کے واسطے مجھے کچھ کھانے کو دے دو۔”
لیکن قافلے کے لوگوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ کسی نے کہا:
“ہمارے پاس خود کے لیے بھی کھانے کی کمی ہے۔”
اور کسی نے کہا:
“یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہم تمہیں کچھ نہیں دے سکتے۔”
مایوس ہو کر وہ شخص قافلے کے آخر میں کھڑا ہو گیا اور اللہ سے دعا کرنے لگا:
“یا اللہ! مجھے کسی ایسے شخص سے ملوائیے جو میری مدد کرے اور میری بھوک مٹائے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، جو قافلے کے پیچھے موجود تھے، اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ ان کا دل اس غریب شخص کی حالت دیکھ کر بھر آیا۔ وہ فوراً اپنی سواری سے اترے اور اس شخص کے قریب گئے۔
انہوں نے نہایت شفقت سے اس سے پوچھا:
“بھائی، تمہیں کیا ضرورت ہے؟”
غریب شخص نے کہا:
“میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں۔ مجھے کچھ کھانے کو دے دیں۔”
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے سامان سے کھانے کا ایک حصہ نکالا اور اپنے ہاتھوں سے اسے پیش کیا۔ انہوں نے کہا:
“یہ لو، اللہ کے نام پر کھاؤ اور اپنی بھوک مٹاؤ۔”
وہ شخص کھانے کے بعد بہت خوش ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا:
“آپ کون ہیں؟ اور آپ نے مجھے کیوں دیا جبکہ باقی سب نے انکار کر دیا؟”
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عاجزی سے جواب دیا:
“میں ایک عام انسان ہوں، لیکن میں نے اپنے نبی ﷺ سے سیکھا ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عمل سے راضی ہوتا ہے اور جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔”
غریب شخص نے حیرت سے پوچھا:
“آپ کے نبی کون ہیں؟ اور وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟”
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نرمی سے کہا:
“ہمارے نبی محمد ﷺ ہیں۔ وہ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کی تعلیمات محبت، رحم دلی، اور انصاف پر مبنی ہیں۔ انہوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے۔ جو شخص دوسروں کی مدد کرتا ہے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔”
یہ سن کر وہ شخص بہت متاثر ہوا اور کہا:
“اگر آپ کے نبی اتنے عظیم ہیں اور ان کی تعلیمات اتنی خوبصورت ہیں، تو میں بھی ان کے دین کو قبول کرنا چاہتا ہوں۔”
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام کی بنیادی تعلیمات بتائیں:
اللہ ایک ہے، اور اس کے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں۔
محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ، اور حج دین
کے
اہم
ارکان ہیں۔
وہ شخص فوراً ایمان لے آیا اور کہا:
“آج میں نے سچا دین پایا ہے۔ یہ وہ دین ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے اور انسانیت کو عزت دیتا ہے۔”
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے۔ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دوسروں کی مدد کرنی چاہیے، انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے، اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانا چاہیے
http://www.youtube.com/@JRWISLAMIBASERAT