KARACHI KI KAHANI
اُس رات ہوا میں سرد برفیلی لہریں چل رہی تھیں۔ شہر کا ایک پُرانا علاقہ، گارڈن ایسٹ، جو پُرانی حویلیوں اور تاریک گلیوں کے لیے مشہور تھا، ایک عجیب خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ علی، جو ایک مقامی صحافی تھا، اپنے نئے اسائنمنٹ کے لیے مواد اکٹھا کرنے نکلا۔ اس کا مشن تھا: کراچی کے پُرانے علاقوں کی حویلیوں کے حوالے سے افسانے لکھنا۔علی نے ایک پُرانی حویلی کا انتخاب کیا جو لوگوں کے بیانات کے مطابق “شفیق مینشن” کے نام سے مشہور تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ اس حویلی میں کچھ عجیب و غریب واقعات ہوئے ہیں۔ حویلی کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ جگہ ایک وقت میں کسی امیر تاجر کی تھی، جو اپنے خاندان کے ساتھ وہاں رہتا تھا۔ مگر ایک دن تمام خاندان اچانک غائب ہو گیا، اور اس کے بعد کسی نے انہیں دوبارہ نہیں دیکھاعلی نے اپنی فلیش لائٹ اور کیمرہ اٹھایا اور حویلی کے اندر داخل ہو گیا۔ اندر کا منظر دہشت ناک تھا۔ دیواروں پر پُرانے خون کے دھبے، فرش پر بکھرے ہوئے کاغذات اور ہوا میں ایک عجیب سی بُو تھی۔ ہر قدم پر اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، مگر تجسس اس کے خوف پر غالب تھا۔اس نے حویلی کے اندر کا ہر کونا دیکھا۔ جب وہ حویلی کے تہہ خانے میں پہنچا، تو اس نے دیکھا ایک پُرانی ڈائری فرش پر پڑی تھی۔ ڈائری کا پہلا صفحہ کھولتے ہی اس نے دیکھا کہ اس پر صرف ایک جملہ لکھا تھا: “جو یہاں آئے، وہ کبھی لوٹ کر نہیں گیااچانک، حویلی کے اندر سے ایک زور کا دھماکہ ہوا اور علی کے ہاتھ سے فلیش لائٹ گر گئی۔ جب اس نے فلیش لائٹ اٹھائی، تو اس نے دیکھا کہ ایک سایہ اس کے سامنے کھڑا ہے۔ سایہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگا۔ علی نے پیچھے مڑ کر بھاگنے کی کوشش کی، مگر اس کے پاؤں جیسے زمین سے چپک گئے تھے۔ سایہ دھیرے دھیرے اس کے قریب آیا اور ایک خوفناک آواز میں بولا، “تم نے یہاں آ کر غلطی کی ہے۔”سایہ اب ایک انسانی شکل میں تبدیل ہونے لگا، لیکن اس کا چہرہ اس قدر خوفناک تھا کہ علی کی سانسیں رکنے لگیں۔ اس کا رنگ بالکل سفید، آنکھیں سرخ اور منہ سے خون ٹپک رہا تھا۔ سایہ نے ایک تیز چیخ ماری، جو علی کے کانوں میں گونج اٹھی۔ اچانک، حویلی کے ہر کونے سے آوازیں آنے لگیں، جیسے کئی لوگ ایک ساتھ رو رہے ہوںعلی نے دیکھا کہ ڈائری کے ساتھ ایک پُرانا تالہ تھا، جو شاید کسی چھپے ہوئے کمرے کو بند کر رہا تھا۔ اس نے تالہ توڑنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی اس نے تالہ کو ہاتھ لگایا، ایک برفیلی ہوا کا جھونکا اس کے آس پاس گھوم گیا۔ تالہ کھلتے ہی ایک چھوٹا کمرہ سامنے آیا، جس میں پُرانے کپڑوں میں لپٹا ایک انسانی ڈھانچہ پڑا تھا۔ ڈھانچے کے پاس ایک پُرانی تصویر تھی، جو شاید حویلی کے مالک اور اس کے خاندان کی تھی۔ تصویر کے پیچھے لکھا تھا: “ہمارا انتقام ابھی باقی ہےجب علی نے کمرے سے نکلنے کی کوشش کی، تو اس نے دیکھا کہ حویلی کا ایک اور دروازہ کھل گیا ہے۔ اس دروازے کے پیچھے ایک بڑی دیوار پر خون سے لکھا تھا: “ہر اگلے قدم پر موت ہے۔” دروازے کے اندر اندھیرا تھا، مگر ایک عجیب سی آواز اسے بلانے لگی۔ علی نے ہمت کر کے اندر قدم رکھا۔ اس نے دیکھا کہ ہر طرف انسانی ہڈیاں اور چہرے سے اُتارے گئے ماسک بکھرے ہوئے تھے۔ ہر ماسک کے پیچھے ایک نام لکھا تھا، اور ایک ماسک پر “علی” لکھا ہوا تھا۔علی نے ماسک اٹھایا، مگر جیسے ہی اس نے ماسک کو ہاتھ لگایا، ایک تیز ہوا کا جھونکا اس کے آس پاس گھوم گیا۔ حویلی کے اندر ایک عورت کی چیخ سنائی دی، جو لگتا تھا اس کا نام پکار رہی ہے۔ “علی… تمہارا وقت ختم ہو گیا ہے۔” علی نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو ایک پُرانی عورت، جس کا چہرہ جل گیا تھا، اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پُرانی چھری تھی، اور اس کی آنکھوں میں خون کی پیاس نظر آ رہی تھی۔علی نے اپنی تمام طاقت جمع کی اور ایک زور کا چیخا۔ اس کی آواز حویلی کے اندر گونج اٹھی اور اس کے بعد ایک گہری خاموشی چھا گئی۔ جب علی نے اپنی آنکھیں کھولیں، تو وہ حویلی کے باہر تھا۔ اس کا کیمرہ اور ڈائری اس کے ساتھ تھے، مگر اس کا دل اب بھی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن اس کے ہاتھ پر ایک نئی تصویر بنی ہوئی تھی: ایک حویلی اور اس کے اوپر لکھا تھا “شفیق مینشن۔” تصویر دھیرے دھیرے جلنے لگی اور علی کی کھال پر ایک نئی لکیر چھوڑ گئی۔جب علی گھر واپس گیا اور اپنے کیمرے کے فوٹیج دیکھی، تو اس نے دیکھا کہ ایک سایہ اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ فوٹیج میں ایک عورت کا سایہ بھی نظر آیا، جو ڈائری کو اٹھا کر علی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس رات کے بعد، علی کافی دن تک بیمار رہا اور اس نے اپنے اسائنمنٹ کو چھوڑ دیا۔ شفیق مینشن اب بھی وہاں موجود ہے، مگر کوئی اس کے اندر جانے کی ہمت نہیں کرتا۔
یہ کہانی اب بھی کراچی کے لوگوں میں گھومتی ہے۔ کیا شفیق مینشن واقعی میں منحوس جگہ ہے، یا یہ صرف ایک افسانہ ہے؟ یہ سوال اب بھی جواب کا منتظر ہے۔
http://www.youtube.com/@JRWISLAMIBASERAT