URDU STORIES
“سائے کا انتقام” – ایک منحوس کہانی
یہ کہانی ایک ویران، سنسان اور منحوس حویلی کی ہے جو گاؤں کے کنارے پر سالوں سے بے جان کھڑی تھی۔ یہ حویلی نہ صرف پرانی تھی بلکہ اس کے ارد گرد ایک عجیب سا خوف چھایا رہتا تھا۔
یہاں آنے والے کہتے تھے کہ جیسے ہی سورج غروب ہوتا، حویلی کی کھڑکیاں خود بخود کھلنے لگتیں، اور اندر سے کسی کے چلنے کی آوازیں آتی تھیں۔ گاؤں کے بزرگوں کا ماننا تھا کہ یہ جگہ آسیب زدہ ہے، اور جو بھی یہاں گیا، وہ واپس نہیں آیا۔
“یہ سب فضول باتیں ہیں!”
یہ الفاظ کہے تھے ریحان نے، جو ایک نوجوان صحافی تھا۔ وہ حقیقت کا متلاشی تھا اور ان پرانی کہانیوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ یہ سب لوگوں کے ذہنوں کا وہم ہے، اور وہ اپنی تحقیق سے ان کہانیوں کی حقیقت سامنے لانا چاہتا تھا۔
مگر اُسے نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک ایسی غلطی کرنے جا رہا ہے جس کی قیمت صرف جان سے نہیں، بلکہ روح سے چکانی پڑے گی۔۔۔
رات کے ٹھیک 12 بجے، ریحان حویلی کے سامنے کھڑا تھا۔ چاندنی کی روشنی حویلی کی پرانی اینٹوں پر پڑ رہی تھی، اور ایک عجیب سی سڑاند بھری ہوا اُس کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔
ریحان نے دروازہ دھکیل کر کھولا۔ زنگ آلود کواڑ کی چرچراہٹ نے ماحول کو اور بھی خوفناک بنا دیا۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، دروازہ ایک زوردار دھماکے سے بند ہوگیا۔
ریحان نے ایک لمحے کے لیے پلٹ کر دیکھا، لیکن اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ اُس نے اپنا کیمرہ آن کیا اور چاروں طرف روشنی ڈالی۔ دیواروں پر پرانے ہاتھوں کے نشان بنے ہوئے تھے، جیسے کسی نے ناخنوں سے دیوار کو نوچنے کی کوشش کی ہو۔
“یہ سب پرانی دیواروں پر مٹی کے نشانات ہوں گے، اور کچھ نہیں۔۔۔” اُس نے خود کو تسلی دی۔
مگر اچانک، اُس کے کیمرے کی اسکرین پر ایک سائے کی جھلک آئی۔
وہ تیزی سے پلٹا۔۔۔
مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
ریحان نے آہستہ آہستہ حویلی کی تاریک راہداری میں قدم رکھا۔
ٹھک۔۔۔ ٹھک۔۔۔
یہ آوازیں اُس کے اپنے قدموں کی تھیں، مگر اچانک، قدموں کی آواز دہری ہو گئی! جیسے کوئی اور بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہو۔
وہ رک گیا۔
مگر دوسرے قدم چلتے رہے۔۔۔
“کون ہے؟” ریحان نے بلند آواز میں کہا۔
خاموشی۔۔۔
اچانک، ایک دروازہ خود بخود کھلا۔
ریحان کے جسم میں جھرجھری دوڑ گئی۔ اُس نے کیمرہ اُس کمرے کی طرف کیا، مگر جیسے ہی روشنی اندر پڑی، دیوار پر موجود تصویر خود بخود نیچے گر گئی۔
“یہ سب میرا وہم ہے۔۔۔ مجھے آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔” ریحان نے خود کو سمجھایا اور کمرے میں داخل ہوگیا۔
یہ کمرہ باقی حصے سے زیادہ عجیب تھا۔ فرش پر خون کے دھبے تھے، جو سوکھ چکے تھے، اور کونے میں ایک پرانی کرسی رکھی تھی، جیسے کوئی وہاں بیٹھا ہو۔
ریحان نے ایک تصویر دیوار سے ہٹائی تو اچانک ایک دراڑ پڑ گئی۔
اچانک، ایک سڑا گلا ہاتھ اس دراڑ سے باہر نکلا!
ریحان نے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر کمرہ لرزنے لگا۔ جیسے کوئی چیخ رہا ہو، مگر آواز باہر نہیں جا رہی تھی۔
دیواروں سے مکروہ چہرے نکلنے لگے!
وہ سب کچھ دیکھ سکتا تھا، مگر حرکت نہیں کر سکتا تھا۔
اُس کے کانوں میں ایک سرگوشی گونجی:
“یہاں قبریں نہیں بنتیں۔۔۔ یہاں لوگ دیواروں میں دفن ہوتے ہیں۔۔۔”
ریحان کا جسم کانپنے لگا۔
یہاں کچھ تھا، جو اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا!
اچانک، وہی سایہ جسے وہ کیمرے میں دیکھ چکا تھا، اب اُس کے سامنے تھا۔
یہ کوئی عام سایہ نہیں تھا۔
یہ ایک بدروح تھی، جس کا چہرہ جلا ہوا تھا، آنکھیں سیاہ کھائیوں کی طرح تھیں، اور ہاتھوں کے ناخن کسی درندے کے پنجوں کی طرح تھے۔
اُس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، اور ریحان کے جسم پر جیسے برف جم گئی۔
“اب تم میرے ہو۔۔۔ ہمیشہ کے لیے۔۔۔”
اچانک، دیواروں سے نکلنے والے ہاتھوں نے ریحان کو جکڑ لیا، اور اندھیرے میں کھینچنے لگے۔ وہ چلایا، مگر اُس کی چیخیں باہر نہیں گئیں۔
اور پھر۔۔۔ خاموشی چھا گئی۔
اگلی صبح، گاؤں کے کچھ لوگ حویلی کے باہر اکٹھے تھے۔
ریحان واپس نہیں آیا تھا۔
جب کچھ لوگوں نے حویلی میں جا کر دیکھا، تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
سوائے ایک نئی تصویر کے، جو دیوار پر لگی ہوئی تھی۔
یہ تصویر ریحان کی تھی۔۔۔ مگر اُس کے ہونٹوں پر ایک خوفناک مسکراہٹ تھی۔۔۔ اور اُس کی آنکھوں سے سیاہ خون بہہ رہا تھا۔۔۔
کیمرہ زمین پر پڑا تھا۔
اس کی آخری ریکارڈنگ میں صرف ایک چیز سنائی دے رہی تھی:
“مت آنا۔۔۔ مت آنا۔۔۔ وہ زندہ نہیں چھوڑتا۔۔۔”
Stories
Short Stories
New Stories
urdu Stories