حضرت خباب بن ارتؓ کا شمار اسلام کے ان پہلے مسلمانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دینِ اسلام کی خاطر اپنی جان، عزت، اور سکون قربان کیا۔ آپ کی زندگی مظلومیت، صبر، اور قربانی کی ایک زندہ مثال ہے، اور آپ کے ایمان کی مضبوطی نے اسلام کی تاریخ میں ایک انمٹ نقوش چھوڑے ہیں
حضرت خباب بن ارتؓ ایک غلام تھے اور قبیلہ بنو تمیم کے سرداروں کے ماتحت زندگی بسر کر رہے تھے۔ آپ پیشے کے لحاظ سے لوہار تھے اور مکہ کے لوگوں کے لیے تلواریں اور دیگر لوہے کے اوزار تیار کرتے تھے۔
جب حضور نبی کریم ﷺ نے مکہ میں اسلام کی دعوت دی، تو حضرت خبابؓ ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوئے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نے حضور ﷺ کی صداقت اور اللہ کی وحدانیت کے پیغام پر لبیک کہا، لیکن غلام ہونے کی وجہ سے آپ کو اسلام قبول کرنے کے بعد کفار مکہ کے بدترین مظالم کا سامنا کرنا پڑاحضرت خبابؓ کے اسلام قبول کرنے کی خبر جب آپ کے مالک کو ملی، تو وہ شدید غضبناک ہوا۔ اس نے آپ کو اسلام سے ہٹانے کے لیے ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ آپ کے مالک اور قبیلے کے سرداروں نے آپ پر ایسے مظالم ڈھائے جنہیں سن کر روح کانپ اٹھتی ہےکفار آپ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیتے تھے۔ آپ کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ آپ ہل نہ سکیں۔ اس دوران آپ کی جلد جلتی، چربی پگھلتی، اور انگارے بجھنے لگتے، لیکن آپ کی زبان سے صرف اللہ کی توحید کی گواہی نکلتی
آپ کے جسم پر دہکتی ہوئی لوہے کی سلاخیں رکھی جاتی تھیں، جن سے آپ کی جلد جھلس جاتی تھی۔ لیکن آپ کے ایمان کی آگ ان اذیتوں کے سامنے کبھی کمزور نہ ہوئی۔
کفار آپ کو کئی دن تک بھوکا پیاسا رکھتے اور دھوپ میں باندھ کر چھوڑ دیتے۔ لیکن آپ نے ہر ظلم کو اللہ کی رضا کے لیے برداشت کیاآپ کے پیشے کو آپ کے خلاف استعمال کیا گیا۔ آپ کو لوہے کی بھٹی میں ڈال کر جلانے کی کوشش کی گئی تاکہ آپ کا ایمان متزلزل ہو جائے، لیکن آپ کی استقامت نے کفار کو مایوس کر دیا۔
ایک دن، جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا، تو حضرت خبابؓ حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: “یا رسول اللہ! کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کریں گے؟ کیا آپ اللہ سے مدد نہیں مانگیں گے؟”
حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: “پچھلی امتوں میں ایسے لوگ بھی تھے جنہیں زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا، اور ان کے جسموں کو آری سے چیر دیا جاتا تھا، لیکن وہ اپنے ایمان سے نہیں ہٹتے تھے۔ اللہ کی قسم! یہ دین مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ ایک عورت صنعا سے حضرموت تک اکیلی سفر کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔”
یہ الفاظ حضرت خبابؓ کے لیے تسلی اور حوصلے کا باعث بنے، اور آپ نے صبر و استقامت کے ساتھ ظلم برداشت کرنا جاری رکھاحضرت خبابؓ کی قربانیاں صرف ان کے جسمانی مظالم تک محدود نہیں تھیں۔ آپ نے اسلام کی تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا اور کئی لوگوں کو دینِ حق کی طرف راغب کیا۔
آپ کی قربانیوں نے دیگر صحابہ کو صبر اور استقامت کی تعلیم دی۔
آپ کی زندگی ایمان کی مضبوطی اور اللہ کی رضا کے لیے قربانی کا نمونہ بنی۔
آپ کی مظلومیت نے اسلام کے دشمنوں کے دلوں میں بھی نرمی پیدا کی، اور کئی لوگ آپ کے کردار سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے
حضرت خبابؓ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک دینِ اسلام کی خدمت کی۔ آپ کے جسم پر ظلم کے نشانات ہمیشہ آپ کے ایمان کی گواہی دیتے رہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: “میرے جسم پر جو زخم ہیں، وہ میرے ایمان کی گواہی ہیں۔”
آپ کے آخری وقت میں آپ کے ساتھیوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے اتنے مظالم کیسے برداشت کیے؟ تو آپ نے جواب دیا: “یہ سب اللہ کی رضا کے لیے تھا، اور مجھے یقین تھا کہ میرا رب مجھے کبھی مایوس نہیں کرے گا۔”
حضرت خباب بن ارتؓ کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:
اللہ پر کامل یقین اور ایمان انسان کو ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھتا ہے۔
دین کے لیے قربانی دینا مومن کی شان ہے۔
دنیا کی مشکلات وقتی ہیں، لیکن آخرت کی کامیابی ہمیشہ کے لیے ہے۔
صبر اور استقامت ہر مومن کے لیے لازم ہیں، کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔