URDU STORIES
کہانی کا آغاز ایک دور افتادہ گاؤں سے ہوتا ہے، جو پہاڑوں اور سرسبز میدانوں کے بیچ آباد تھا۔ یہاں کے لوگ سادہ زندگی گزارتے تھے، لیکن قدرتی وسائل کی کمی اکثر ان کے لیے مشکلات کا باعث بنتی تھی۔ اسی گاؤں میں ایک نوجوان رہتا تھا جس کا نام زبیر تھا۔ زبیر ایک یتیم نوجوان تھا، جو اپنی بیوہ ماں فاطمہ کے ساتھ رہتا تھا۔ ان کی زندگی کا دارومدار زبیر کی دن رات کی محنت پر تھا۔ وہ کھیتوں میں کام کرتا، لکڑیاں کاٹتا، اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کر کے چند سکے کما لیتا تھا۔فاطمہ ایک نہایت نیک دل خاتون تھیں۔ وہ اکثر زبیر کو سمجھاتیں:
“بیٹا، یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے تاکہ ان کا صبر اور شکر کا امتحان لے۔ مشکلات کے بعد آسانیاں ضرور آتی ہیں۔”
زبیر نے اپنی ماں کی نصیحت کو ہمیشہ اپنے دل میں بسا لیا تھاایک سال گاؤں میں سخت قحط پڑا۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں برباد ہو گئیں، زمینیں بنجر ہو گئیں، اور پانی کے ذخائر ختم ہو گئے۔ گاؤں کے لوگ بھوک اور پیاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ زبیر اور اس کی ماں کے لیے یہ وقت بہت سخت تھا۔زبیر کے کھیت میں کچھ بھی پیدا نہ ہوا۔ اس کی ماں بیمار ہو گئی، اور ان کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہ بچا۔ زبیر دن رات کام کی تلاش میں نکلتا، لیکن ہر بار خالی ہاتھ واپس آتا۔ اس کی مایوسی بڑھ رہی تھی، لیکن فاطمہ نے اسے حوصلہ دیا:
“اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ دعا کرو اور اپنی محنت جاری رکھو۔ وہ وقت دور نہیں جب تمہاری مشکلات ختم ہوں گی۔”ایک دن زبیر گاؤں کے باہر پہاڑی علاقے میں کام کی تلاش میں جا رہا تھا۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا اور کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام کرنے لگا۔ اچانک ایک اجنبی بزرگ اس کے قریب آئے۔ وہ نورانی چہرے والے شخص تھے، جن کے ہاتھ میں ایک لاٹھی تھی۔ انہوں نے زبیر سے کہا:
“بیٹا، تمہاری محنت اور صبر کو میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں۔ اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو ہمت نہیں ہارتے۔ اگر تمہاری نیت نیک ہے، تو تمہاری مشکلات ختم ہونے کا وقت قریب ہے۔”زبیر نے حیرانی سے پوچھا: “لیکن بزرگوار، میرے لیے کیا راستہ ہے؟”
بزرگ نے مسکراتے ہوئے کہا:
“یہاں سے قریب کی پہاڑی کے پیچھے ایک درخت ہے۔ اس کے نیچے زمین کھودو، تمہیں وہاں کچھ خاص ملے گا۔ لیکن یاد رکھو، جو کچھ تمہیں ملے، اسے دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی استعمال کرنا۔”زبیر کو بزرگ کی بات عجیب لگی، لیکن اس کے دل میں ایک امید پیدا ہوئی۔زبیر نے بزرگ کی ہدایت کے مطابق پہاڑی کا رخ کیا۔ وہ درخت تک پہنچا اور کھدائی شروع کی۔ کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد اسے ایک لکڑی کا بکس ملا۔ بکس کو کھولتے ہی زبیر حیران رہ گیا۔ اس میں چمکتے ہوئے سونے کے سکے، کچھ قیمتی جواہرات، اور ایک خط موجود تھا۔خط میں لکھا تھا:
“یہ خزانہ اس شخص کے لیے ہے جو محنتی، نیک دل، اور صابر ہو۔ یہ تمہارے لیے اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے۔ اسے اپنی زندگی بہتر بنانے اور دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کرو۔ یاد رکھو، یہ خزانہ تمہارے کردار کاامتحان ہے۔”زبیر نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سوچنے لگا کہ اس خزانے کو کس طرح استعمال کرے۔زبیر بکس لے کر اپنی ماں کے پاس آیا اور تمام باتیں بتائیں۔ فاطمہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور زبیر کو نصیحت کی کہ وہ اس دولت کو نیک کاموں میں خرچ کرے۔ زبیر نے اپنی ماں کی بات مانتے ہوئے سب سے پہلے اپنے کھیت کو زرخیز بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نئے بیج، کھاد، اور آلات خریدے اور دن رات محنت کر کے اپنی زمین کو قابل کاشت بنا دیا۔زبیر کی پیداوار میں اضافہ ہونے لگا، اور وہ گاؤں کے سب سے کامیاب کسانوں میں شمار ہونے لگا۔ لیکن زبیر نے اپنی دولت کو صرف اپنے لیے محدود نہیں رکھا۔ اس نے گاؤں کے لوگوں کے لیے بھی کام کرنا شروع کیا۔زبیر نے گاؤں میں پانی کی قلت کو ختم کرنے کے لیے ایک کنواں کھدوایا۔ اس نے ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کی، جہاں گاؤں کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ زبیر نے بیمار اور ضرورت مند لوگوں کے لیے ایک فنڈ بھی بنایا، جس سے ان کی مالی مدد کی جاتی تھی۔چند سالوں میں زبیر کی محنت، نیک نیتی، اور صبر کی بدولت گاؤں کی حالت بدل گئی۔ گاؤں میں خوشحالی آ گئی، اور لوگ زبیر کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ زبیر خود بھی اللہ کے شکر گزار رہا اور ہمیشہ نیکی کے راستے پر چلتا رہا
زبیر کی کہانی ایک مثال ہے کہ مشکلات کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر انسان صبر کرے، محنت کرے، اور دوسروں کی مدد کا جذبہ رکھے، تو اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے۔ زبیر کی دولت نے نہ صرف اس کی زندگی بدلی بلکہ گاؤں کے دوسرے لوگوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کیںزندگی میں مشکلات کا سامنا صبر کے ساتھ کرنا چاہیے، کیونکہ ہر آزمائش کے بعد آسانی آتی ہے۔محنت کبھی ضائع نہیں جاتی، اور نیکی کا اجر دنیا اور آخرت دونوں میں ملتا ہے۔ اپنی کامیابی کو دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا انسان کی اصل خوبی ہے۔زبیر کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے
کہ اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو خود بھی دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔

