BEST NEW URDU STORIES
شہر کے کنارے پر واقع “خاموش جنگل” صدیوں سے پراسرار کہانیوں کا مرکز تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ وہاں قدم رکھنے والے لوگ کبھی واپس نہیں آتے، اور اگر آتے بھی ہیں تو ان کی عقل کھو چکی ہوتی ہے۔ گاؤں کے بوڑھے لوگ کہتے تھے کہ جنگل میں کسی زمانے میں جادوگر بستے تھے، اور انہوں نے اپنی طاقتوں کو چھپانے کے لیے جنگل پر ایک جادوئی پردہ ڈال دیا تھا۔”ایمان” ایک نڈر لڑکی تھی، جو اپنی زندگی کو روایتی خوف اور کہانیوں کے سایے میں گزارنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کا دل ہمیشہ سوالوں سے بھرا رہتا تھا، اور وہ ہر وقت نئی حقیقتوں کو تلاش کرنے کے بارے میں سوچتی تھی۔ اس کی والدہ اکثر اسے نصیحت کرتیں:
“بیٹی، کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں انسان کو نہیں جانا چاہیے۔”
لیکن ایمان ہمیشہ مسکرا کر جواب دیتی:
“امی، جو جگہیں خطرناک سمجھی جاتی ہیں، وہی سب سے زیادہ سیکھنے کا موقع دیتی ہیں۔”ایک رات جب چاند اپنی پوری روشنی کے ساتھ چمک رہا تھا، ایمان نے فیصلہ کیا کہ آج وہ اس جنگل کے راز کو دریافت کرے گی۔ اس نے اپنے چھوٹے سے کمرے سے ایک چراغ لیا، ایک چھوٹا سا خنجر اپنے دفاع کے لیے کمر کے ساتھ باندھا، اور دبے قدموں گھر سے نکل گئی۔جنگل کے دروازے پر پہنچتے ہی اس نے محسوس کیا کہ ہوا کا دباؤ بدل گیا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے جنگل نے اس کی موجودگی کو محسوس کر لیا ہو۔ ایمان نے دل میں دعا کی اور جنگل کے اندر قدم رکھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی، ہر طرف کی شاخیں اور پتے ہلنے لگے، اور ایک عجیب سی سرگوشی کی آواز آئی:
“کون ہو تم؟ اور یہاں کیوں آئی ہو؟”ایمان نے خوف کو دل سے نکال کر کہا:
“میں یہاں سچائی کی تلاش میں آئی ہوں۔”چند قدم چلنے کے بعد، ایمان کو راستہ تنگ ہوتا محسوس ہوا۔ چاروں طرف درختوں کی شاخیں آپس میں گتھم گتھا ہو رہی تھیں، اور ایک تاریکی اس پر چھا رہی تھی۔ لیکن اس نے اپنے چراغ کی روشنی کو بڑھایا اور دل میں کہا:
“یہ راستہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو، میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔”اچانک ایک پرانا پل اس کے سامنے آیا، جو ایک گہری کھائی کے اوپر تھا۔ پل کے نیچے سے پانی بہنے کی آواز آ رہی تھی، لیکن پل اتنا کمزور لگ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے گر سکتا تھا۔ ایمان نے خود پر قابو رکھتے ہوئے پل کو عبور کیا، اور جب وہ دوسرے کنارے پر پہنچی، تو اسے محسوس ہوا کہ جیسے جنگل نے اس کی ہمت کا اعتراف کیا ہو۔چلتے چلتے ایمان ایک شفاف جھیل کے پاس پہنچ گئی، جو روشنی سے چمک رہی تھی۔ جھیل کے کنارے ایک عجیب و غریب شخصیت بیٹھی تھی۔ وہ ایک بزرگ تھے، جن کا چہرہ روشنی سے جگمگا رہا تھا، اور ان کی آنکھوں میں حکمت کی گہرائی تھی۔ایمان نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا:
“آپ کون ہیں؟ اور یہاں کیا کر رہے ہیں؟”بزرگ مسکرا کر بولے:
“میں اس جنگل کا محافظ ہوں۔ میں ان لوگوں کی رہنمائی کرتا ہوں جو سچائی اور روشنی کی تلاش میں یہاں آتے ہیں۔ تم کیوں آئی ہو، بیٹی؟”ایمان نے دل کی گہرائی سے جواب دیا:
“میں جاننا چاہتی ہوں کہ یہ جنگل اتنا پراسرار کیوں ہے؟ اور لوگ کیوں کہتے ہیں کہ یہاں سے کوئی واپس نہیں آتا؟”بزرگ نے اپنی چھڑی جھیل کے پانی کی طرف بڑھائی اور کہا:
“اس جھیل میں دیکھو۔ تمہیں تمہارے سوال کا جواب ملے گا۔”ایمان نے جھیل میں جھانکا اور حیران رہ گئی۔ پانی کے اندر اس کی اپنی تصویر نظر آ رہی تھی، لیکن وہ تصویر ایک روشنی سے گھری ہوئی تھی۔ جھیل کے اندر وہ خود کو مضبوط، نڈر اور پُراعتماد دیکھ سکتی تھی۔بزرگ نے کہا:
“یہ جنگل ایک آئینہ ہے، جو تمہیں تمہارے اندر چھپی ہوئی حقیقت دکھاتا ہے۔ جو لوگ خوف اور لالچ کے ساتھ یہاں آتے ہیں، وہ اپنی کمزوریوں کے سامنے ہار جاتے ہیں۔ لیکن جو ہمت اور جستجو کے ساتھ آتے ہیں، وہ اپنی روشنی کو پہچان لیتے ہیں۔”ایمان نے حیرت سے پوچھا:
“تو کیا یہ سب میرا امتحان تھا؟”بزرگ نے جواب دیا:
“ہاں، اور تم نے کامیابی حاصل کی۔ اب تمہارے دل میں کوئی خوف باقی نہیں رہا، اور یہی زندگی کا سب سے بڑا سبق ہے۔”ایمان جب واپس شہر پہنچی تو وہ ایک نئی شخصیت کے ساتھ لوٹی۔ اس کے دل میں نہ کوئی خوف تھا اور نہ کوئی شک۔ اس نے لوگوں کو اپنی کہانی سنائی، اور انہیں یہ سکھایا کہ خوف صرف ہمارے ذہن کا بنایا ہوا ہے۔ اگر ہم اپنی ذات کی روشنی کو پہچان لیں، تو کوئی تاریکی ہمیں نہیں ڈرا سکتی
ایمان کی کہانی صرف ایک لڑکی کی جستجو کی نہیں، بلکہ ہم سب کی زندگی کا آئینہ ہے۔ ہم سب کے اندر روشنی موجود ہے، بس ہمیں اسے پہچاننے کی ضرورت ہے۔